اتنی شدت میں نے تجھے پانے کی کوشش کی ہے

کہ ہر ذرے نے مجھے تجھ سے ملانے کی سازش کی ہے

کیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ تم نے کسی کو انتہائی شدت سے چاہا ہو، چاہنے سے زیادہ پوجا ہو اور اسنے بھی تمھیں اتنی ہی شدت سے چاہا ہو۔ لیکن تم دونوں پھر بھی نہ مل پائے ہوں اور زمانہ تم دونوں سے جیت گیا ہو؟

آپکے ساتھ ہوا ہو کہ نہ ہوا ہو میرے ساتھ یہ ضرور ہوا ہے۔

آج سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اس تمام کائنات نے ہم دونوں کو جدا کرنے کی سازش کی ہو۔

پر آخر کیوں؟

میں سالوں اس سوال کا جواب سوچا کیا۔

جواب تب ملا جب اپنے آپ کو کھوجا۔

اور وہ جواب میرے خواب و خیال سے بھی ما ورا تھا۔

وہ وہی جواب تھا جو کہ منصور الحلاج نے زمانے کو دیا تھا۔

جس خدا کو تم پوجتے ہو وہ کہتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔

کیا تمھارا ایک انسان ہونے کے ناطے سے اتنا بھی حق نہیں کہ تو بھی اپنے خدا کو آزما؟

جان کہ تیرا خدا کتنا سچا ہے؟

اُسکے وعدوں کو جانچ کہ جیسے وہ تجھے جانچتا ہے۔

پر تُو جانچ بھی کیسے سکتا ہے کہ تُو جسے پوجتا ہے اُسنے تو اپنے ہر وعدے کو کل پہ اٹھا رکھا ہے۔

تُم اپنے ایک تو وعدے کو آج پورا کرو

تمام وعدوں کو کیوں کل پہ ٹال رکھا ہے؟

پنڈت رازدان

آج کہہ دے اپنے خدا سے کہ

وصل ہو جائے یہاں، حشر میں کیا رکھا ہے؟

آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے؟

امیرمینائی

جان رکھو کہ اگر خدا سے تجارت کر گے تو فنا ہو جاو گے۔

پر اگر خدا سے محبت کرو گے – سچی محبت تو بقا پا جاو گے۔

انسان جب سچائی کی راہ پر چلتا ہے تو اس دنیا کا ہر ذرہ اسے فتحیاب کرنے کی سازش میں لگ جاتا ہے۔ سچی راہ وہ ہے جو کہ انسان کو سچے خدا تک پہنچا دے۔

انسان جب جھوٹ کے دھوکے پہ چلتا ہے تو اس دنیا کا ہر ذرہ اُسے ناکام کرنے کی سازش میں لگ جاتا ہے۔

سچائی میں کامیابی ہے اور جھوٹ میں ناکامی۔

اسی سچائی اور جھوٹ کا پردہ چاک کرتی ہے میری کتاب ساون کی ایک رات – صرف بالغوں کیلئے۔

محبت کے مقدس ترین خدا – خدائے محبت کی محبت میں