محبت ایک دریا ہے پیار کا بہتا ہوا۔

یہ دریا اپنے راستے کی کسی بھی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرتا۔

کوئی بھی چیز محبت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

محبت کا یہ مقدس دریا پہاڑوں کے سینے بھی چاک کر دیتا ہے۔

محبت کا دریا اپنے راستے کی تمام رکاوٹوں کو پار کر کے محبت کے عظیم اور مقدس سمندر میں مل جاتا ہے۔

پیار کوئی بول نہیں، پیار آواز نہیں

اک خموشی ہے سناتی ہے کہا کرتی ہے

نہ یہ بجھتی ہے، نہ رکتی ہے نہ ٹھہری ہے کہیں

نور کی بوند ہے صدیوں سے بہا کرتی ہے

 

(گلزار)

محبت کے دریا میں تیرنے والے عاشق راست باز ہوتے ہیں، باوفا ہوتے ہیں، اپنے ارادوں کے اٹل ہوتے ہیں، پاکباز ہوتے ہیں، مصمم ہوتے ہیں۔

چاہے لاکھ طوفاں آئیں، چاہے جان بھی اب جائے

مشکل ہو جینا پھر بھی پڑے زہر پینا پھر بھی

مل کے نہ ہونگے جدا، آ قسم کھا لیں

یہ چاہت رہیگی صدا، آ، آ قسم کھا لیں

 

(شمسُ ا لھد یٰ بہاری)

دل کیا کرے جب کسی کو کسی سے پیار ہو جائے؟

محبت کے دریا کے بہاو پہ خود کو بہنے دے۔ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ اس دریا میں طغیانی آئے گی۔ بچنا چاہتا ہے تو اپنا سفینہ بنا – سفینہ برگِ گُل۔

بڑا خونی سمندر سامنے ہے، کہیں ٹھنڈی ہوا میں سو نہ جانا

طلاطم خیز ہے لہروں کی یورش سنبھل کر ناو کو آگے بڑھانا

اگر ان لب و رخسار کے دھوکے میں آئے گا تو ڈوب جائے گا۔

دل کیا کرے جب کسی کو کسی سے پیار ہو جائے؟

ہاں، بہت کچھ کرے۔ اپنے اندر ٹٹولے اور جانے کہ تُو کون ہے؟

خود کو جاننا کچھ آساں نہیں بلکہ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ پر محبت اس کام کو آساں بنا دینی ہے کہ

محبت عظیم ہے

محبت کے مقدس ترین خدا – خدائے محبت کی محبت میں